دل جو اک جائے تھی دنیا ہوئی آباد اس میں
پہلے سنتے ہیں کہ رہتی تھی کوئی یاد اس میں

وہ جو تھا اپنا گمان آج بہت یاد آیا
تھی عجب راØ+تِ آزادیِ ایجاد اس میں

ایک ہی تو وہ مہم تھی جسے سر کرنا تھا
مجھے Ø+اصل نہ کسی Ú©ÛŒ ہوئی امداد اس میں

ایک خوشبو میں رہی مجھ کو تلاشِ خدوخال
رنگ فصیلیں مری یارو ہوئیں برباد اس میں

باغِ جاں سے تُو کبھی رات گئے گزرا ہے
کہتے ہیں رات میں کھیلیں ہیں پری زاد اِس میں

دل Ù…Ø+Ù„Û’ میں عجب ایک قفس تھا یارو
صید کو چھوڑ کے رہنے لگا صیاد اس میں